مشکل ہےبہت کربلا جانا۔ اور زائرِ حسین کہلانا۔
سلامِ الوداع میں مانگی اجل مولا سے
ماعل نہ دل تھا لوٹ کر آنا
تمنہ تھی کے پیوندِ زمینِ کربلا ہوتے
اگرچے خاک ہی ہوتے مگر خاکِ شفا ہوتے۔
٭ توافِ روضئے شبیر میں ہو زندگی پوری
مدحِ آلِ خیبر گیر میں ہو زندگی پوری
قمہ و ماتمِ زنجیر میں ہو زندگی پوری
میرے مولا تیری جاگیر میں ہو زندگی پوری
سرِ گمبد پرندوں کی طرح محوِفضہ ہوتے۔
٭ کفِ عباس کو دیکھا تو دل میں یہ خیال آیا
تیرے بازو تھے سب کی آس اے سقا سکینہ کا
یہ منظر سوچ کے مولا میرا دل رو کے یہ بولا
کہاں بازو، کہاں روضہ، کہاں خیمہ، کہاں دریا
مقامِ بازوِ عباس پر بازو فدا ہوتے۔
٭ برابر بابِ قبلہ کے مقامِ ٹلہ زینبیہ
زمینِ کربلا لرزی جہاں پر آسماں لرزا
بہن نے جس جگہ بھائی کو زبحہ ہوتے دیکھا تھا
وہ تیرا ضربیں ظالم کی میرے آقا کا وہ سجدہ
وہ زرے ٹلہ زینب کے میری بخشش کی جاہوتے۔
٭ یزیدی فوج جو کرنے لگی تھی بات پانی کی
دیکھا دی حضرتِ عباس نے اوقات پانی کی
فراتِ کربلا کو دیتے یوں خیرات پانی کی
اشارہ ہوتا تو ہوتی وہیں برسات پانی کی
میری میت پے چند قطرے ہی تب آبِ بقہ ہوتے۔
٭ وہ جانِ اُمِ لیلا جانِ شاہ و گیسوّں والا
وہ ہمشکلِ نبی وہ زینب و کلثوم کا پالا
وہ جس کے مرنے سے آنکھوں پہ شہ کی پڑہگیا حالا
سناہ جس جالگی اُس کو جگہ وہ بن گئی اعلیٰ
مقامِ حضرتِ اکبر پے دل ہم بھی فداہ کرتے۔
٭ درِ بابِ ہوائج وہ میرے شبیر کا پیارا
جھولائے کون اے بے شیر آکے تیرا گھوارا
امارت میں رکھا کتنا حسیں قرآن کا پارا
میرے مولا مجھے بھی شرف آخر ایسا مل جاتا
مقامِ حضرتِ اصغر پے فطرس ہمنوا ہوتے۔
٭ مقامِ قائمِ آلِ محمد کا حسیں منظر
وہیں سے ہوکے آتے ہیں رسول و فاطمہ حیدر
برہناپا امامِ وقت جاتے ہیں یہی کہہ کر
میرے جد اے میرے مظلوم شیر فاتح خیبر
جہاں تھے پاؤں آقا کے وہاں پر سجدگاہ ہوتے۔
٭ جو لکھتا ہے اسد تیرے کرم کا شکریہ مولا
منیرِ نوحہ خواں پڑھتا ہے نوحہ شکریہ مولا
کرم دونوں پے یوں مولا ہے رکھنا شکریہ مولا
تیری جاگیر پہ پھر سے بلانا شکریہ مولا
جبیں سجدے میں لب اپنے برائے شکریہ ہوتے۔
Comments
Post a Comment