قید خانے میں خاموشی عجب تاری ہے
شہہ مظلوم پہ کیوںکر نہ آہ و زاری ہے
شبِ عاشور کے بعد سو نہ سکی جو اب تک
اُس کی زندان میں اب سونے کی تیاری ہے۔
خموشی یہ زنداں کی بتلا رہی ہے
بالی سکینہ کو نیند آگئی ہے۔
٭ نوحہ کُناں یوں نہ بی بی کوئی ہے
زنجیرِ عابد نہ اب ماتمی ہے
کچھ مطمعیں آج بنتِ علی ہے
پہلی یہ شب ہائے زندان کی ہے
جاگی ہوئی اب سکوں پارہی ہے۔
٭ تھا کام اِسکا صبح و شام رونا
بابا کو دے کر صدائیں بُلانا
پھر اُن صدائوں پہ اعدا کا آنا
اِس پر جفا ڈھانا اور چُپ کرانا
شُکرانہ سجدے میں ماں جارھی ہے۔
٭ ہے مثلِ زھرا یہ زھرا کی پوتی
اِس کمسنی میں چھائی ضعیفی
یہ نیل گوں چہرہ اور کان زخمی
پشت پہ راھوں کے ہیں نقش کاری
ماں اِسکا ہر نیل سہلہ رہی ہے۔
٭ حیراں ہیں زنداں کے دیوار اور در
رو رو کے بچی کا تھا حال ابتر
سینے پہ شہہ کے جو سوتی تھی دُختر
تکیہ ہے پتھر بنی خاک بستر
غریبی مقدر کی سمجھا رہی ہے۔
٭ سکینہ کو دیتی تھیں ہر دم دلاسہ
وہ کچھ دور بیٹھی ہیں اُمِ لبابہ
سُناتی جورھتی تھیں ذکر چچا کا
سکھایا جو رُتبہ ہے صبرورضا کا
وہ عباس سا پیار دکھلا رھی ھے۔
٭ سر کو جُھکائے جو بیٹھے ہوئے ہیں
بہن کی مصیبت پے روتے رہیں ہیں
عدوکے ستم اِس پہ جب بھی بڑے ہیں
تو ہر گام پر ڈھال وہ بن گئے ہیں
یہ عابد کی تزکیں بتلا رہی ہے۔
٭ پڑھو اے منیر ِ عزا فرشِ غم پر
نوائے خموشی کو مجلس میں جاکر
سکینہ کا زاکر ہے آصف سُخنور
نہ لکھ پایا بی بی شہادت کا منظر
جگانے پہ ماں کے نہ اُٹھ پارہی ہے۔
Comments
Post a Comment